EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

داغؔ دہلوی




یہ سیر ہے کہ دوپٹہ اڑا رہی ہے ہوا
چھپاتے ہیں جو وہ سینہ کمر نہیں چھپتی

داغؔ دہلوی




یہ تو کہئے اس خطا کی کیا سزا
میں جو کہہ دوں آپ پر مرتا ہوں میں

tell me pray for this crime what punishment is due
if I were to thus declare- I'm dying in love for you

داغؔ دہلوی




یہ تو نہیں کہ تم سا جہاں میں حسیں نہیں
اس دل کو کیا کروں یہ بہلتا کہیں نہیں

داغؔ دہلوی




یوں بھی ہزاروں لاکھوں میں تم انتخاب ہو
پورا کرو سوال تو پھر لا جواب ہو

داغؔ دہلوی




یوں میرے ساتھ دفن دل بے قرار ہو
چھوٹا سا اک مزار کے اندر مزار ہو

داغؔ دہلوی




ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

داغؔ دہلوی




زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں

داغؔ دہلوی




زمانے کے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی