EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

دیکھنا اچھا نہیں زانو پہ رکھ کر آئنہ
دونوں نازک ہیں نہ رکھیو آئنے پر آئنہ

داغؔ دہلوی




آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا

داغؔ دہلوی




دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

داغؔ دہلوی




داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے

داغؔ دہلوی




چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند

داغؔ دہلوی




چھیڑ معشوق سے کیجے تو ذرا تھم تھم کر
روز کے نامہ و پیغام برے ہوتے ہیں

داغؔ دہلوی




چاک ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں

داغؔ دہلوی




چاہ کی چتون میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

داغؔ دہلوی




بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

داغؔ دہلوی