وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
داغؔ دہلوی
واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو
دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جام شراب ہو
داغؔ دہلوی
وعدہ جھوٹا کر لیا چلئے تسلی ہو گئی
ہے ذرا سی بات خوش کرنا دل ناشاد کا
داغؔ دہلوی
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی
داغؔ دہلوی
سنائی جاتی ہیں در پردہ گالیاں مجھ کو
کہوں جو میں تو کہے آپ سے کلام نہیں
داغؔ دہلوی
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی
داغؔ دہلوی
سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
داغؔ دہلوی
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں
داغؔ دہلوی
ٹھوکر بھی راہ عشق میں کھانی ضرور ہے
چلتا نہیں ہوں راہ کو ہموار دیکھ کر
داغؔ دہلوی