ساقیا تشنگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں
داغؔ دہلوی
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
داغؔ دہلوی
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
داغؔ دہلوی
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغؔ دہلوی
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
داغؔ دہلوی
سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا
داغؔ دہلوی
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
جھوٹی پھر کس کی قسم کھایئے گا
داغؔ دہلوی
شب وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
داغؔ دہلوی
وہ زمانا بھی تمہیں یاد ہے تم کہتے تھے
دوست دنیا میں نہیں داغؔ سے بہتر اپنا
داغؔ دہلوی