EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

سنائی جاتی ہیں در پردہ گالیاں مجھ کو
کہوں جو میں تو کہے آپ سے کلام نہیں

داغؔ دہلوی




طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ ندی اتر جائے گی

داغؔ دہلوی




تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی

داغؔ دہلوی




تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی




ٹھوکر بھی راہ عشق میں کھانی ضرور ہے
چلتا نہیں ہوں راہ کو ہموار دیکھ کر

داغؔ دہلوی




اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

داغؔ دہلوی




ادھر شرم حائل ادھر خوف مانع
نہ وہ دیکھتے ہیں نہ ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی




ان کی فرمائش نئی دن رات ہے
اور تھوڑی سی مری اوقات ہے

داغؔ دہلوی




اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغؔ دہلوی