نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو
مکان خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا
بشیر بدر
مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی
بشیر بدر
میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
بشیر بدر
میرا شیطان مر گیا شاید
میرے سینے پہ سو رہا ہے کوئی
بشیر بدر
مندر گئے مسجد گئے پیروں فقیروں سے ملے
اک اس کو پانے کے لیے کیا کیا کیا کیا کیا ہوا
went to temples,mosques, and saints,mendicants I saught
to find the one what all I did what on myself have brought
بشیر بدر
میں یوں بھی احتیاطاً اس گلی سے کم گزرتا ہوں
کوئی معصوم کیوں میرے لیے بدنام ہو جائے
بشیر بدر
میں تمام تارے اٹھا اٹھا کے غریب لوگوں میں بانٹ دوں
وہ جو ایک رات کو آسماں کا نظام دے مرے ہاتھ میں
بشیر بدر
میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی
بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے
بشیر بدر
میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی
بشیر بدر