پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے
بشیر بدر
پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں
مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا
بشیر بدر
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
why does one have to wait for night
what doesn't transpire in broad daylight
بشیر بدر
رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں
بشیر بدر
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
بشیر بدر
وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا
کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا
بشیر بدر
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
بشیر بدر
وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی
بشیر بدر
وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع
بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے
بشیر بدر