EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے

بشیر بدر




پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں
مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا

بشیر بدر




رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا

why does one have to wait for night
what doesn't transpire in broad daylight

بشیر بدر




رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں

بشیر بدر




وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

بشیر بدر




وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا
کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا

بشیر بدر




وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

بشیر بدر




وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی

بشیر بدر




وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع
بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے

بشیر بدر