شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا
اب ان دنوں میری غزل خوشبو کی اک تصویر ہے
ہر لفظ غنچے کی طرح کھل کر ترا چہرہ ہوا
شاید اسے بھی لے گئے اچھے دنوں کے قافلے
اس باغ میں اک پھول تھا تیری طرح ہنستا ہوا
ہر چیز ہے بازار میں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
عزت گئی شہرت ملی رسوا ہوئے چرچا ہوا
مندر گئے مسجد گئے پیروں فقیروں سے ملے
اک اس کو پانے کے لئے کیا کیا کیا کیا کیا ہوا
انمول موتی پیار کے دنیا چرا کر لے گئی
دل کی حویلی کا کوئی دروازہ تھا ٹوٹا ہوا
برسات میں دیوار و در کی ساری تحریریں مٹیں
دھویا بہت مٹتا نہیں تقدیر کا لکھا ہوا
غزل
شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
بشیر بدر