بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی
یہ دنیا دلہن ہے جلائی ہوئی
بھری دوپہر کا کھلا پھول ہے
پسینے میں لڑکی نہائی ہوئی
کرن پھول کی پتیوں میں دبی
ہنسی اس کے ہونٹوں پہ آئی ہوئی
وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی
اداسی بچھی ہے بڑی دور تک
بہاروں کی بیٹی پرائی ہوئی
خوشی ہم غریبوں کی کیا ہے میاں
مزاروں پہ چادر چڑھائی ہوئی
غزل
بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی
بشیر بدر