سنوار نوک پلک ابرووں میں خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے
غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے
چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چراغ کی لو کو ذرا سا کم کر دے
کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے
غزل
سنوار نوک پلک ابرووں میں خم کر دے
بشیر بدر