بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا
گھر چھوڑ کے مت جاؤ کہیں گھر نہ ملے گا
پھر یاد بہت آئے گی زلفوں کی گھنی شام
جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا
آنسو کو کبھی اوس کا قطرہ نہ سمجھنا
ایسا تمہیں چاہت کا سمندر نہ ملے گا
اس خواب کے ماحول میں بے خواب ہیں آنکھیں
جب نیند بہت آئے گی بستر نہ ملے گا
یہ سوچ لو اب آخری سایہ ہے محبت
اس در سے اٹھوگے تو کوئی در نہ ملے گا
غزل
بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا
بشیر بدر