سنسان راستوں سے سواری نہ آئے گی
اب دھول سے اٹی ہوئی لاری نہ آئے گی
چھپر کے چائے خانے بھی اب اونگھنے لگے
پیدل چلو کہ کوئی سواری نہ آئے گی
تحریر و گفتگو میں کسے ڈھونڈتے ہیں لوگ
تصویر میں بھی شکل ہماری نہ آئے گی
سر پر زمین لے کے ہواؤں کے ساتھ جا
آہستہ چلنے والے کی باری نہ آئے گی
پہچان اپنی ہم نے مٹائی ہے اس طرح
بچوں میں کوئی بات ہماری نہ آئے گی
غزل
سنسان راستوں سے سواری نہ آئے گی
بشیر بدر