پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے
اور اس دل کی طرف برسے تو پتھر برسے
کوئی بادل ہو تو تھم جائے مگر اشک مرے
ایک رفتار سے دن رات برابر برسے
برف کے پھولوں سے روشن ہوئی تاریک زمیں
رات کی شاخ سے جیسے مہ و اختر برسے
پیار کا گیت اندھیروں پہ اجالوں کی پھوار
اور نفرت کی صدا شیشے پہ پتھر برسے
بارشیں چھت پہ کھلی جگہوں پہ ہوتی ہیں مگر
غم وہ ساون ہے جو ان کمروں کے اندر برسے
غزل
پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے
بشیر بدر