EN हिंदी
پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے | شیح شیری
patthar ke jigar walo gham mein wo rawani hai

غزل

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

بشیر بدر

;

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

اک ذہن پریشاں میں خواب غزلستاں ہے
پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے

دل سے جو چھٹے بادل تو آنکھ میں ساون ہے
ٹھہرا ہوا دریا ہے بہتا ہوا پانی ہے

ہم رنگ دل پر خوں ہر لالۂ صحرائی
گیسو کی طرح مضطر اب رات کی رانی ہے

جس سنگ پہ نظریں کیں خورشید حقیقت ہے
جس چاند سے منہ موڑا پتھر کی کہانی ہے

اے پیر خرد منداں دل کی بھی ضرورت ہے
یہ شہر غزالاں ہے یہ ملک جوانی ہے

غم وجہ فگار دل غم وجہ قرار دل
آنسو کبھی شیشہ ہے آنسو کبھی پانی ہے

اس حوصلۂ دل پر ہم نے بھی کفن پہنا
ہنس کر کوئی پوچھے گا کیا جان گنوانی ہے

دن تلخ حقائق کے صحراؤں کا سورج ہے
شب گیسوئے افسانہ یادوں کی کہانی ہے

وہ حسن جسے ہم نے رسوا کیا دنیا میں
نادیدہ حقیقت ہے نا گفتہ کہانی ہے

وہ مصرعۂ آوارہ دیوانوں پہ بھاری ہے
جس میں ترے گیسو کی بے ربط کہانی ہے

ہم خوشبوئے آوارہ ہم نور پریشاں ہیں
اے بدرؔ مقدر میں آشفتہ بیانی ہے