اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا
احمد مشتاق
اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب
احمد مشتاق
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی
احمد مشتاق
ارے کیوں ڈر رہے ہو جنگل سے
یہ کوئی آدمی کی بستی ہے
احمد مشتاق
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
احمد مشتاق
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
احمد مشتاق
بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
احمد مشتاق
بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے
احمد مشتاق
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شب غم کے مقدر نکلے
احمد مشتاق