چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شب غم کے مقدر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے
دھوپ ساون کی بہت تیز ہے دل ڈوبتا ہے
اس سے کہہ دو کہ ابھی گھر سے نہ باہر نکلے
پیار کی شاخ تو جلدی ہی ثمر لے آئی
درد کے پھول بڑی دیر میں جا کر نکلے
دل ہنگامہ طلب یہ بھی خبر ہے تجھ کو
مدتیں ہو گئیں اک شخص کو باہر نکلے
غزل
چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
احمد مشتاق