EN हिंदी
احمد مشتاق شیاری | شیح شیری

احمد مشتاق شیر

70 شیر

ملنے کی یہ کون گھڑی تھی
باہر ہجر کی رات کھڑی تھی

احمد مشتاق




مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

احمد مشتاق




موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

احمد مشتاق




میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے

احمد مشتاق




میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

احمد مشتاق




کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

احمد مشتاق




کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا

احمد مشتاق




کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

احمد مشتاق




خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

احمد مشتاق