کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
احمد مشتاق
جو مقدر تھا اسے تو روکنا بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں ناگہانی ہو گئیں
احمد مشتاق
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
احمد مشتاق
جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں
یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے
احمد مشتاق
جہان عشق سے ہم سرسری نہیں گزرے
یہ وہ جہاں ہے جہاں سرسری نہیں کوئی شے
احمد مشتاق
جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ
احمد مشتاق
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
احمد مشتاق
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
احمد مشتاق
اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا
احمد مشتاق