یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب
پکارتا ہوں تو دیتے نہیں صدا مرے لب
یہ اور بات کسی کے لبوں تلک نہ گئے
مگر قریب سے گزرے ہیں بارہا مرے لب
اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے
وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب
اب ایک عمر سے گفت و شنید بھی تو نہیں
ہیں بے نصیب مرے کان بے نوا مرے لب
یہ شاخسانۂ وہم و گمان تھا شاید
کجا وہ ثمرۂ باغ طلب کجا مرے لب
غزل
یہ کون خواب میں چھو کر چلا گیا مرے لب
احمد مشتاق