EN हिंदी
احمد مشتاق شیاری | شیح شیری

احمد مشتاق شیر

70 شیر

چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور
دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور

احمد مشتاق




اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا

احمد مشتاق




چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شب غم کے مقدر نکلے

احمد مشتاق




بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے

احمد مشتاق




بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

احمد مشتاق




بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے

احمد مشتاق




بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا

احمد مشتاق




ارے کیوں ڈر رہے ہو جنگل سے
یہ کوئی آدمی کی بستی ہے

احمد مشتاق




اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

احمد مشتاق