گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے
اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر
احمد مشتاق
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
احمد مشتاق
ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں
احمد مشتاق
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
احمد مشتاق
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
احمد مشتاق
دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں
احمد مشتاق
دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں
احمد مشتاق
چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور
دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور
احمد مشتاق
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
احمد مشتاق