EN हिंदी
احمد مشتاق شیاری | شیح شیری

احمد مشتاق شیر

70 شیر

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق




دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم

احمد مشتاق




ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں

احمد مشتاق




گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے

احمد مشتاق




گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے
اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر

احمد مشتاق




ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا

احمد مشتاق




ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

احمد مشتاق




ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں تتلیاں بناتے ہیں

احمد مشتاق




ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں

احمد مشتاق