کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
احمد مشتاق
عمر بھر دکھ سہتے سہتے آخر اتنا تو ہوا
اپنی چپ کو دیکھ لیتا ہوں صدا بنتے ہوئے
احمد مشتاق
تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
احمد مشتاق
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
احمد مشتاق
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
احمد مشتاق
ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں
احمد مشتاق
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
احمد مشتاق
تماشہ گاہ جہاں میں مجال دید کسے
یہی بہت ہے اگر سرسری گزر جائیں
احمد مشتاق
چھت سے کچھ قہقہے ابھی تک
جالوں کی طرح لٹک رہے ہیں
احمد مشتاق