بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
پھر بدلی کی یورش ہوگی پھر تارا چھپ جائے گا
اندھیارے کے گھور نگر میں ایک کرن آباد ہوئی
کس کو خبر ہے پہلا جھونکا کتنے پھول کھلائے گا
پھر اک لمحہ آن رکا ہے وقت کے سونے صحرا میں
پل بھر اپنی چھب دکھلا کر لمحوں میں مل جائے گا
غزل
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
احمد مشتاق