EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
سوچ کے اب پچھتاتے ہیں

آشفتہ چنگیزی




بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے

عبد الاحد ساز




نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک
مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے

عبد الاحد ساز




کسی جانب سے کوئی مہ جبیں آنے ہی والا ہے
مجھے یاد آ رہی ہے آج متھرا اور کاشی کی

عبد الحمید عدم




تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے

عبد المجید سالک




گو فراموشی کی تکمیل ہوا چاہتی ہے
پھر بھی کہہ دو کہ ہمیں یاد وہ آیا نہ کرے

ابرار احمد




مرکز جاں تو وہی تو ہے مگر تیرے سوا
لوگ ہیں اور بھی اس یاد پرانی میں کہیں

ابرار احمد