اتنا کیوں شرماتے ہیں
وعدے آخر وعدے ہیں
لکھا لکھایا دھو ڈالا
سارے ورق پھر سادے ہیں
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
سوچ کے اب پچھتاتے ہیں
ریت محل دو چار بچے
یہ بھی گرنے والے ہیں
جائیں کہیں بھی تجھ کو کیا
شہر سے تیرے جاتے ہیں
گھر کے اندر جانے کے
اور کئی دروازے ہیں
انگلی پکڑ کے ساتھ چلے
دوڑ میں ہم سے آگے ہیں
غزل
اتنا کیوں شرماتے ہیں
آشفتہ چنگیزی