ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں
اب وہ تحریر ہے اوراق خزانی میں کہیں
بس یہ اک ساعت ہجراں ہے کہ جاتی ہی نہیں
کوئی ٹھہرا بھی ہے اس عالم فانی میں کہیں
جتنا ساماں بھی اکٹھا کیا اس گھر کے لیے
بھول جائیں گے اسے نقل مکانی میں کہیں
خیر اوروں کا تو کیا ذکر کہ اب لگتا ہے
تو بھی شامل ہے مرے رنج زمانی میں کہیں
چشم نمناک کو اس درجہ حقارت سے نہ دیکھ
تجھ کو مل جانا ہے اک دن اسی پانی میں کہیں
مرکز جاں تو وہی تو ہے مگر تیرے سوا
لوگ ہیں اور بھی اس یاد پرانی میں کہیں
جشن ماتم بھی ہے رونق سی تماشائی کو
کوئی نغمہ بھی ہے اس مرثیہ خوانی میں کہیں
آج کے دن میں کسی اور ہی دن کی ہے جھلک
شام ہے اور ہی اس شام سہانی میں کہیں
کیا سمجھ آئے کسی کو مجھے معلوم بھی ہے
بات کر جاتا ہوں میں اپنی روانی میں کہیں
غزل
ہم نے رکھا تھا جسے اپنی کہانی میں کہیں
ابرار احمد