آنکھ اٹھا کے میری سمت اہل نظر نہ دیکھ پائے
آنکھ نہ ہو تو کس قدر سہل ہے دیکھنا مجھے
شہزاد احمد
آنکھیں نہ کھلیں نور کے سیلاب میں میری
ہو روشنی اتنی کہ اندھیرا نظر آئے
شہزاد احمد
آگے نکل گئے وہ مجھے دیکھتے ہوئے
جیسے میں آدمی نہ ہوا نقش پا ہوا
شہزاد احمد
آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
شہزاد احمد
آرزو کی بے حسی کا گر یہی عالم رہا
بے طلب آئے گا دن اور بے خبر جائے گی رات
شہزاد احمد
آرزوؤں نے کئی پھول چنے تھے لیکن
زندگی خار بداماں ہے اسے کیا کہیے
شہزاد احمد
آتا ہے خوف آنکھ جھپکتے ہوئے مجھے
کوئی فلک کے خیمے کی رسی نہ کاٹ دے
شہزاد احمد
آزاد تھا مزاج تو کیوں گھر بنا لیا
اب عمر بھر یہی در و دیوار دیکھیے
شہزاد احمد
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
شہزاد احمد