باغ بہشت کے مکیں کہتے ہیں مرحبا مجھے
پھینک کے فرش خاک پر بھول گیا خدا مجھے
میں ترا بندہ ہوں مگر تیرے جہاں کا رازدار
تو ہے مرا خدا مگر تو نہیں جانتا مجھے
سوچتا ہوں سناؤں کیا عہد ستم کی داستاں
کہتا ہوں خیر چھوڑیئے یاد نہیں رہا مجھے
تھا کسی سائے کا خیال تھی کسی گل کی جستجو
دشت کی سمت چل دیا دیکھ کے راستا مجھے
روز نیا مقام ہے روز نئی امنگ ہے
تیری تلاش کیا کروں اپنا نہیں پتا مجھے
رنگ تھا میں تو کیوں زمیں مجھ سے ہوئی نہ لالہ زار
خاک تھا میں تو کس لیے لے نہ اڑی ہوا مجھے
لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم چلتا رہا قدم قدم
ڈوبتے چاند کا سفر کتنا عزیز تھا مجھے
گرچہ مری چمک سے بند چشم ستارہ و فلک
نور ہوں پھر بھی نور کا رنگ نہیں ملا مجھے
آنکھ اٹھا کے میری سمت اہل نظر نہ دیکھ پائے
آنکھ نہ ہو تو کس قدر سہل ہے دیکھنا مجھے
غزل
باغ بہشت کے مکیں کہتے ہیں مرحبا مجھے
شہزاد احمد