وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی
یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے
شہزاد احمد
وہ کوئی اور ہے جس نے تجھے چاہا ہوگا
شہر میں لوگ بہت سے مری صورت کے بھی ہیں
شہزاد احمد
وہ مری صبحوں کا تارا وہ مری راتوں کا چاند
میرے دل کی روشنی تو تھا مگر میرا نہ تھا
شہزاد احمد
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہوگا
مجھ میں اتنی بھی سکت کب ہے کہ دھوکا کھاؤں
شہزاد احمد
یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد
شہزاد احمد
یہ الگ بات زباں ساتھ نہ دے پائے گی
دل کا جو حال ہے کہنا تو پڑے گا تجھ سے
شہزاد احمد
زمین ناؤ مری بادباں مرے افلاک
میں ان کو چھوڑ کے ساحل پہ کب اترتا ہوں
شہزاد احمد
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک
شہزاد احمد
زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے
شہزاد احمد