مسافر ہو تو سن لو راہ میں صحرا بھی آتا ہے
نکل آئے ہو گھر سے کیا تمہیں چلنا بھی آتا ہے
شہزاد احمد
نقش حیرت بن گئی دنیا ستاروں کی طرح
سب کی سب آنکھیں کھلی ہیں جاگتا کوئی نہیں
شہزاد احمد
نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے
شہزاد احمد
نہ سہی جسم مگر خاک تو اڑتی پھرتی
کاش جلتے نہ کبھی بال و پر پروانہ
شہزاد احمد
نہ ملے وہ تو تلاش اس کی بھی رہتی ہے مجھے
ہاتھ آنے پہ جسے چھوڑ دیا جاتا ہے
شہزاد احمد
نہ میں نے دست شناسی کا پھر کیا دعویٰ
نہ اس نے ہاتھ مجھے چومنے دیا پھر سے
شہزاد احمد
میسر پھر نہ ہوگا چلچلاتی دھوپ میں چلنا
یہیں کے ہو رہوگے سائے میں اک پل اگر بیٹھے
شہزاد احمد
منزل پہ جا کے خاک اڑانے سے فائدہ
جن کی تلاش تھی مجھے رستے میں مل گئے
شہزاد احمد
مطلوب ہے کیا اب یہی کہتے نہیں بنتی
دامن تو بڑے شوق سے پھیلایا ہوا تھا
شہزاد احمد