آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے
آج کا پھول تری کوکھ سے ظاہر ہوگا
شاخ دل خشک نہ ہو اب کے تری باری ہے
دھیان بھی اس کا ہے ملتے بھی نہیں ہیں اس سے
جسم سے بیر ہے سائے سے وفا داری ہے
دل کو تنہائی کا احساس بھی باقی نہ رہا
وہ بھی دھندلا گئی جو شکل بہت پیاری ہے
اس تگ و تاز میں ٹوٹے ہیں ستارے کتنے
آسماں جیت سکا ہے نہ زمیں ہاری ہے
کوئی آیا ہے ذرا آنکھ تو کھولو شہزادؔ
ابھی جاگے تھے ابھی سونے کی تیاری ہے
غزل
آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
شہزاد احمد