تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا
جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے
شہزاد احمد
تری تلاش تو کیا تیری آس بھی نہ رہے
عجب نہیں کہ کسی دن یہ پیاس بھی نہ رہے
شہزاد احمد
ترا میں کیا کروں اے دل تجھے کچھ بھی نہیں آتا
بچھڑنا بھی اسے آتا ہے اور ملنا بھی آتا ہے
شہزاد احمد
تیرگی ہی تیرگی حد نظر تک تیرگی
کاش میں خود ہی سلگ اٹھوں اندھیری رات میں
شہزاد احمد
ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے
زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے
شہزاد احمد
تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے ہیں
دل کو تنہائی کا احساس دلانے والے
شہزاد احمد
تلاش کرنی تھی اک روز اپنی ذات مجھے
یہ بھوت بھی مرے سر پر سوار ہونا تھا
شہزاد احمد
تختۂ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجے
اتنے لوگوں میں گناہ گار کوئی تو ہوگا
شہزاد احمد
ٹکراتا ہے سر پھوڑتا ہے سارا زمانہ
دیوار کو رستے سے ہٹاتا نہیں پھر بھی
شہزاد احمد