EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

یہ اور بات اسے زندگی نہ کہہ پائیں
وگرنہ آج بھی ہم جی رہے ہیں جینے کو

شہزاد احمد




یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے

شہزاد احمد




یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں پہ بیٹھ کمند آسماں پہ ڈالے جا

شہزاد احمد




یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے

شہزاد احمد




یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے

شہزاد احمد




یوں ترک تعلق کی قسم کھائے ہوئے ہوں
جیسے مرے سینے میں کسی اور کا دل ہے

شہزاد احمد




یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

شہزاد احمد




یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک

شہزاد احمد




زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے

شہزاد احمد