یہ اور بات اسے زندگی نہ کہہ پائیں
وگرنہ آج بھی ہم جی رہے ہیں جینے کو
شہزاد احمد
یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے
شہزاد احمد
یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں پہ بیٹھ کمند آسماں پہ ڈالے جا
شہزاد احمد
یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے
شہزاد احمد
یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے
شہزاد احمد
یوں ترک تعلق کی قسم کھائے ہوئے ہوں
جیسے مرے سینے میں کسی اور کا دل ہے
شہزاد احمد
یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے
شہزاد احمد
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک
شہزاد احمد
زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے
شہزاد احمد