EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگر تنہا نہ تھا

شہزاد احمد




آنکھ اٹھا کے میری سمت اہل نظر نہ دیکھ پائے
آنکھ نہ ہو تو کس قدر سہل ہے دیکھنا مجھے

شہزاد احمد




اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

شہزاد احمد




آزاد تھا مزاج تو کیوں گھر بنا لیا
اب عمر بھر یہی در و دیوار دیکھیے

شہزاد احمد




آتا ہے خوف آنکھ جھپکتے ہوئے مجھے
کوئی فلک کے خیمے کی رسی نہ کاٹ دے

شہزاد احمد




آرزوؤں نے کئی پھول چنے تھے لیکن
زندگی خار بداماں ہے اسے کیا کہیے

شہزاد احمد




آرزو کی بے حسی کا گر یہی عالم رہا
بے طلب آئے گا دن اور بے خبر جائے گی رات

شہزاد احمد




آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے

شہزاد احمد




آگے نکل گئے وہ مجھے دیکھتے ہوئے
جیسے میں آدمی نہ ہوا نقش پا ہوا

شہزاد احمد