EN हिंदी
ڈوب جائیں گے ستارے اور بکھر جائے گی رات | شیح شیری
Dub jaenge sitare aur bikhar jaegi raat

غزل

ڈوب جائیں گے ستارے اور بکھر جائے گی رات

شہزاد احمد

;

ڈوب جائیں گے ستارے اور بکھر جائے گی رات
دیکھتی رہ جائیں گی آنکھیں گزر جائے گی رات

رات کا پہلا پہر ہے اہل دل خاموش ہیں
صبح تک روتی ہوئی آنکھوں سے بھر جائے گی رات

آرزو کی بے حسی کا گر یہی عالم رہا
بے طلب آئے گا دن اور بے خبر جائے گی رات

روشنی کیسی اگر عالم اندھیرا ہو گیا
دل میں بس جائے گی آنکھوں میں اتر جائے گی رات

کوئی آہٹ بھی نہ سن پائے گا خوابیدہ چمن
خشک پتوں پر دبے پاؤں گزر جائے گی رات

دل میں رہ جائیں گے تنہائی کے قدموں کے نشاں
اپنے پیچھے کتنی یادیں چھوڑ کر جائے گی رات

شام ہی سے سو گئے ہیں لوگ آنکھیں موند کر
کس کا دروازہ کھلے گا کس کے گھر جائے گی رات

دیر تک شہزادؔ آنکھوں میں پھرے گی چاندنی
کٹ تو جائے گی مگر کیا کچھ نہ کر جائے گی رات