EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

زمین ناؤ مری بادباں مرے افلاک
میں ان کو چھوڑ کے ساحل پہ کب اترتا ہوں

شہزاد احمد




زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے

شہزاد احمد




یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک

شہزاد احمد




یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے

شہزاد احمد




یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے

شہزاد احمد




یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں پہ بیٹھ کمند آسماں پہ ڈالے جا

شہزاد احمد




اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ
احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے

شہزاد احمد




یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے

شہزاد احمد




یوں ترک تعلق کی قسم کھائے ہوئے ہوں
جیسے مرے سینے میں کسی اور کا دل ہے

شہزاد احمد