زمین ناؤ مری بادباں مرے افلاک
میں ان کو چھوڑ کے ساحل پہ کب اترتا ہوں
شہزاد احمد
زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے
شہزاد احمد
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک
شہزاد احمد
یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو
اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے
شہزاد احمد
یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے
شہزاد احمد
یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شاید
زمیں پہ بیٹھ کمند آسماں پہ ڈالے جا
شہزاد احمد
اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ
احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے
شہزاد احمد
یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے
شہزاد احمد
یوں ترک تعلق کی قسم کھائے ہوئے ہوں
جیسے مرے سینے میں کسی اور کا دل ہے
شہزاد احمد