عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے
دل بہر حال پریشاں ہے اسے کیا کہیے
بلبلیں طاقت گفتار سے محروم ہوئیں
اب یہ آئین گلستاں ہے اسے کیا کہیے
لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی ہے
بوئے گل پھر بھی پریشاں ہے اسے کیا کہیے
رہنما دور بہت دور نکل آئے ہیں
قافلہ راہ میں حیراں ہے اسے کیا کہیے
آرزوؤں نے کئی پھول چنے تھے لیکن
زندگی خار بداماں ہے اسے کیا کہیے
اپنے ماضی کی حکایات بہت خوب سہی
اب نئے دور کا ساماں ہے اسے کیا کہیے
سوچتے تھے کہ سحر نور بد اماں ہوگی
تیرگی پھر بھی نمایاں ہے اسے کیا کہیے
اہتمام سحر نو تو کریں گے لیکن
دل ابھی بے سر و ساماں ہے اسے کیا کہیے
میں نے کس حال میں دیکھا ہے چمن کو شہزادؔ
اور دل اب بھی غزل خواں ہے اسے کیا کہیے
غزل
عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے
شہزاد احمد