رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
شہزاد احمد
پتھر نہ پھینک دیکھ ذرا احتیاط کر
ہے سطح آب پر کوئی چہرہ بنا ہوا
شہزاد احمد
پیرہن چست ہوا سست کھڑی دیواریں
اسے چاہوں اسے روکوں کہ جدا ہو جاؤں
شہزاد احمد
پیکر گل آسمانوں کے لیے بیتاب ہے
خاک کہتی ہے کہ مجھ سا دوسرا کوئی نہیں
شہزاد احمد
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
شہزاد احمد
نیند آتی ہے اگر جلتی ہوئی آنکھوں میں
کوئی دیوانے کی زنجیر ہلا دیتا ہے
شہزاد احمد
میں گل خشک ہوں لمحے میں بکھر سکتا ہوں
یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دیر ہوا رہنے دے
شہزاد احمد
میں اپنی جاں میں اسے جذب کس طرح کرتا
اسے گلے سے لگایا لگا کے چھوڑ دیا
شہزاد احمد
میں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جاؤں
مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں بہت
شہزاد احمد