EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

آئے بت خانے سے کعبے کو تو کیا بھر پایا
جا پڑے تھے تو وہیں ہم کو پڑا رہنا تھا

امیر مینائی




آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے

show me not your anger dear show me your youthful prime
the wealth that you have covered up is truly sublime

امیر مینائی




آبرو شرط ہے انساں کے لیے دنیا میں
نہ رہی آب جو باقی تو ہے گوہر پتھر

امیر مینائی




آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے

امیر مینائی




آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

امیر مینائی




عاشق کا بانکپن نہ گیا بعد مرگ بھی
تختے پہ غسل کے جو لٹایا اکڑ گیا

امیر مینائی




آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا

امیر مینائی




اب آیا دھیان اے جان جہاں اس نا مرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

امیر مینائی




ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو

امیر مینائی