ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم ان کی نہیں جاتی
نگہ نیچی کئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں
امیر مینائی
ملی ہے دختر رز لڑ جھگڑ کے قاضی سے
جہاد کر کے جو عورت ملے حرام نہیں
امیر مینائی
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
امیر مینائی
مسی چھوٹی ہوئی سوکھے ہوئے ہونٹ
یہ صورت اور آپ آتے ہیں گھر سے
امیر مینائی
مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
دو چار سال تک تو الٰہی سحر نہ ہو
امیر مینائی
پہلے تو مجھے کہا نکالو
پھر بولے غریب ہے بلا لو
امیر مینائی
نبض بیمار جو اے رشک مسیحا دیکھی
آج کیا آپ نے جاتی ہوئی دنیا دیکھی
امیر مینائی
ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا
امیر مینائی
پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا
امیر مینائی