EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

سارا پردہ ہے دوئی کا جو یہ پردہ اٹھ جائے
گردن شیخ میں زنار برہمن ڈالے

امیر مینائی




ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

امیر مینائی




سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے

امیر مینائی




سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

امیر مینائی




سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

the veil slips from her visage at such a gentle pace
as though the sun emerges from a cloud's embrace

امیر مینائی




سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا

امیر مینائی




شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی




شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا

امیر مینائی




شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

I haven't slept since parting eve, O Angels, I request
I'll settle your accounts at leisure for now let me rest

امیر مینائی