سارا پردہ ہے دوئی کا جو یہ پردہ اٹھ جائے
گردن شیخ میں زنار برہمن ڈالے
امیر مینائی
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
امیر مینائی
سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
امیر مینائی
سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
امیر مینائی
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
the veil slips from her visage at such a gentle pace
as though the sun emerges from a cloud's embrace
امیر مینائی
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا
امیر مینائی
شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
امیر مینائی
شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا
امیر مینائی
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
I haven't slept since parting eve, O Angels, I request
I'll settle your accounts at leisure for now let me rest
امیر مینائی