EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں

امیر مینائی




ہم جو پہنچے تو لب گور سے آئی یہ صدا
آئیے آئیے حضرت بہت آزاد رہے

امیر مینائی




ہے وصیت کہ کفن مجھ کو اسی کا دینا
ہاتھ آ جائے جو اترا ہوا پیراہن دوست

امیر مینائی




ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے

youthfullness is itself an ornament forsooth
innocence is the only jewel needed in ones youth

امیر مینائی




ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ جگر تھام لیا
تم نے اس وقت تو گرتا ہوا گھر تھام لیا

امیر مینائی




ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری

seeing my condition, she laughs and asks of me
"Easy did you then imagine, loving me would be?"

امیر مینائی




گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

امیر مینائی




گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجھلا کر کہا
واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی

امیر مینائی




گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

امیر مینائی