ہو گیا بند در میکدہ کیا قہر ہوا
شوق پا بوس حسیناں جو تجھے تھا اے دل
امیر مینائی
ہلال و بدر دونوں میں امیرؔ ان کی تجلی ہے
یہ خاکہ ہے جوانی کا وہ نقشہ ہے لڑکپن کا
امیر مینائی
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
امیر مینائی
ہم جو پہنچے تو لب گور سے آئی یہ صدا
آئیے آئیے حضرت بہت آزاد رہے
امیر مینائی
ہے وصیت کہ کفن مجھ کو اسی کا دینا
ہاتھ آ جائے جو اترا ہوا پیراہن دوست
امیر مینائی
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
youthfullness is itself an ornament forsooth
innocence is the only jewel needed in ones youth
امیر مینائی
ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ جگر تھام لیا
تم نے اس وقت تو گرتا ہوا گھر تھام لیا
امیر مینائی
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
seeing my condition, she laughs and asks of me
"Easy did you then imagine, loving me would be?"
امیر مینائی
گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی