شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا
امیر مینائی
شیخ کہتا ہے برہمن کو برہمن اس کو سخت
کعبہ و بت خانہ میں پتھر ہے پتھر کا جواب
امیر مینائی
شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد
راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں
امیر مینائی
سیدھی نگاہ میں تری ہیں تیر کے خواص
ترچھی ذرا ہوئی تو ہیں شمشیر کے خواص
امیر مینائی
طرف کعبہ نہ جا حج کے لیے ناداں ہے
غور کر دیکھ کہ ہے خانۂ دل مسکن دوست
امیر مینائی
توقع ہے دھوکے میں آ کر وہ پڑھ لیں
کہ لکھا ہے ناما انہیں خط بدل کر
امیر مینائی
تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے
امیر مینائی
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
امیر مینائی
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
امیر مینائی