پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا
امیر مینائی
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا
امیر مینائی
پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
امیر مینائی
پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
بیکار ہے جو دانت دہن سے نکل گیا
امیر مینائی
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
ہمارے عیب نے بے عیب کر دیا ہم کو
یہی ہنر ہے کہ کوئی ہنر نہیں آتا
سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں
جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
see if it rises from the heart or from the soul it flows
does anybody know the source from where this smoke arose?
see if it rises from the heart or from the soul it flows
does anybody know the source from where this smoke arose?
امیر مینائی
راستے اور تواضع میں ہے ربط قلبی
جس طرح لام الف میں ہے الف لام میں ہے
امیر مینائی
رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا
امیر مینائی
روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے
امیر مینائی
سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ
یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے
امیر مینائی