EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا

امیر مینائی




پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا

امیر مینائی




پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں

امیر مینائی




پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
بیکار ہے جو دانت دہن سے نکل گیا

امیر مینائی




انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے




درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے




اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے




حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں




ہمارے عیب نے بے عیب کر دیا ہم کو
یہی ہنر ہے کہ کوئی ہنر نہیں آتا




سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں
جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے




دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

see if it rises from the heart or from the soul it flows
does anybody know the source from where this smoke arose?




see if it rises from the heart or from the soul it flows
does anybody know the source from where this smoke arose?

امیر مینائی




راستے اور تواضع میں ہے ربط قلبی
جس طرح لام الف میں ہے الف لام میں ہے

امیر مینائی




رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا

امیر مینائی




روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے

امیر مینائی




سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ
یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے

امیر مینائی