EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے

O lord no other lust may this heart contain
at this tender age may forever she remain

امیر مینائی




باتیں ناصح کی سنیں یار کے نظارے کیے
آنکھیں جنت میں رہیں کان جہنم میں رہے

امیر مینائی




برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق

امیر مینائی




بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر

امیر مینائی




چھیڑ دیکھو مری میت پہ جو آئے تو کہا
تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں

امیر مینائی




دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے

امیر مینائی




فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

امیر مینائی




فرقت میں منہ لپیٹے میں اس طرح پڑا ہوں
جس طرح کوئی مردہ لپٹا ہوا کفن میں

امیر مینائی




گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

امیر مینائی