EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

وصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی

so what if all my rivals from the gathering have gone
when her coyness too departs will we be then alone

امیر مینائی




وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہیں کی زباں کے ہیں

امیر مینائی




وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں

امیر مینائی




یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری

my love beside me, solitude, tell them to play a part
why do my desires cower hidden in my heart

امیر مینائی




یہ بھی اک بات ہے عداوت کی
روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی

امیر مینائی




یہ کہوں گا یہ کہوں گا یہ ابھی کہتے ہو
سامنے ان کے بھی جب حضرت دل یاد رہے

امیر مینائی




زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے
پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو

امیر مینائی




ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی
مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی

امیر مینائی




زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

امیر مینائی