ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
امیر مینائی
آئے بت خانے سے کعبے کو تو کیا بھر پایا
جا پڑے تھے تو وہیں ہم کو پڑا رہنا تھا
امیر مینائی
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
امیر مینائی
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
امیر مینائی
اللہ ری نزاکت جاناں کہ شعر میں
مضموں بندھا کمر کا تو درد کمر ہوا
امیر مینائی
امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
امیر مینائی
اپنی محفل سے عبث ہم کو اٹھاتے ہیں حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں
امیر مینائی
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
even after death my love did not forsake
at my grave my desires kept a steady wake
امیر مینائی
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سن کے لیے
امیر مینائی