EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو

امیر مینائی




آئے بت خانے سے کعبے کو تو کیا بھر پایا
جا پڑے تھے تو وہیں ہم کو پڑا رہنا تھا

امیر مینائی




اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

امیر مینائی




اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا

امیر مینائی




اللہ ری نزاکت جاناں کہ شعر میں
مضموں بندھا کمر کا تو درد کمر ہوا

امیر مینائی




امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں

امیر مینائی




اپنی محفل سے عبث ہم کو اٹھاتے ہیں حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں

امیر مینائی




بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری

even after death my love did not forsake
at my grave my desires kept a steady wake

امیر مینائی




باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سن کے لیے

امیر مینائی