EN हिंदी
امیر مینائی شیاری | شیح شیری

امیر مینائی شیر

117 شیر

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

the veil slips from her visage at such a gentle pace
as though the sun emerges from a cloud's embrace

امیر مینائی




سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا

امیر مینائی




شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی




وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

امیر مینائی




وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہیں کی زباں کے ہیں

امیر مینائی




وصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی

so what if all my rivals from the gathering have gone
when her coyness too departs will we be then alone

امیر مینائی




وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

امیر مینائی




وائے قسمت وہ بھی کہتے ہیں برا
ہم برے سب سے ہوئے جن کے لیے

امیر مینائی




اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

The one that I desire, this heart cannot displace
The one who is unattainable I seek to embrace

امیر مینائی