وصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی
so what if all my rivals from the gathering have gone
when her coyness too departs will we be then alone
امیر مینائی
وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہیں کی زباں کے ہیں
امیر مینائی
یہ کہوں گا یہ کہوں گا یہ ابھی کہتے ہو
سامنے ان کے بھی جب حضرت دل یاد رہے
امیر مینائی
زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
امیر مینائی
ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی
مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی
امیر مینائی
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے
پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو
امیر مینائی
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
امیر مینائی
یہ بھی اک بات ہے عداوت کی
روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی
امیر مینائی
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
my love beside me, solitude, tell them to play a part
why do my desires cower hidden in my heart
امیر مینائی