امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
امیر مینائی
اپنی محفل سے عبث ہم کو اٹھاتے ہیں حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں
امیر مینائی
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
even after death my love did not forsake
at my grave my desires kept a steady wake
امیر مینائی
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سن کے لیے
امیر مینائی
باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے
O lord no other lust may this heart contain
at this tender age may forever she remain
امیر مینائی
باتیں ناصح کی سنیں یار کے نظارے کیے
آنکھیں جنت میں رہیں کان جہنم میں رہے
امیر مینائی
برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق
امیر مینائی
بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر
امیر مینائی
چھیڑ دیکھو مری میت پہ جو آئے تو کہا
تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں
امیر مینائی