میں منحرف تھا جس سے حرف انحراف کی طرح
کھلا وہ دھیرے دھیرے بوئے انکشاف کی طرح
یہ بے ثمر زمیں یہ رائیگاں فلک کے سلسلے
ہیں میرے گرد کیوں حصار اعتکاف کی طرح
وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا
لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح
یہ لگ رہا ہے سب دعائیں مستجاب ہو گئیں
جگہ جگہ ہے گہرا آسماں شگاف کی طرح
صف منافقاں میں پھر وہ جا ملا تو کیا عجب
ہوئی تھی صلح بھی خموش اختلاف کی طرح
غزل
میں منحرف تھا جس سے حرف انحراف کی طرح
مصور سبزواری