EN हिंदी
ملت شیاری | شیح شیری

ملت

36 شیر

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

بشیر بدر




نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

بشیر بدر




ہر ملاقات کا انجام جدائی تھا اگر
پھر یہ ہنگامہ ملاقات سے پہلے کیا تھا

اعجاز گل




تیرے ملاپ بن نہیں فائزؔ کے دل کو چین
جیوں روح ہو بسا ہے تو اس کے بدن میں آ

فائز دہلوی




کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں

فاطمہ حسن




مدتیں گزریں ملاقات ہوئی تھی تم سے
پھر کوئی اور نہ آیا نظر آئینے میں

حنیف کیفی




منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی

حسرتؔ موہانی