کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
ہم نے دیکھا ہے فقط خواب کھلی آنکھوں سے
خواب تھی وصل کی وہ رات سمجھتا ہی نہیں
میں نے پہنچایا اسے جیت کے ہر خانے میں
میری بازی تھی مری مات سمجھتا ہی نہیں
رات پروائی نے اس کو بھی جگایا ہوگا
رات کیوں کٹ نہ سکی رات سمجھتا ہی نہیں
شاعری کا کوئی انداز سمجھتا ہے انہیں
وہ محبت کی روایات سمجھتا ہی نہیں
غزل
کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
فاطمہ حسن