کی نظر میں نے جب احساس کے آئینے میں
اپنا دل پایا دھڑکتا ہوا ہر سینے میں
مدتیں گزریں ملاقات ہوئی تھی تم سے
پھر کوئی اور نہ آیا نظر آئینے میں
اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں
اپنے انداز سے اندازہ لگایا سب نے
مجھ کو یاروں نے غلط کر لیا تخمینے میں
اپنی جانب نہیں اب لوٹنا ممکن میرا
ڈھل گیا ہوں میں سراپا ترے آئینے میں
ایک لمحے کو ہی آ جائے میسر کیفیؔ
وہ نظر جو مجھے دیکھے مرے آئینے میں
غزل
کی نظر میں نے جب احساس کے آئینے میں
حنیف کیفی